رات بہت سرد ہے اور دل پگھل رہا ہے
کیا ماجرا ہے آخر کیوں دل بدل رہا ہے
سونے سے پہلے اور ہی حالات تھے مگر
بیدار جب ہوئے تو لگا روپ ڈھل رہا ہے
باہر نکل کے آسماں کی اور جو دیکھا تو
تاروں کے ساتھ چاند بھی کیسا مچل رہا ہے
دل نے کہا کہ لہروں کی موجیں بھی دیکھ لیں
ساحل کی ریت پہ مگر پاؤں پھسل رہا ہے
لیکن وہ منظر دور سے آ ہی گیا نظر
پانی پہ عکس چاند کا دیکھا پھسل رہا ہے
برسوں کی آرزو اچانک رنگ لائی تو
دل ڈولنے لگا تھا لیکن سنبھل رہا ہے
آئے تھے جو خیال میں وہ لفظ بکھرنے لگے
یہ ہی وجہ ہے خامہ ذرا سست چل رپا ہے
عظمٰی میری رگوں میں میری زندگی بن کے
یہ کیسا درد ہے جو میرے ساتھ پل رہا ہے