رات کا سناٹا کتنا گہرا ہے
اور وقت بھی ٹھہرا ہے
کیسے کوئی پہچانا جائے
ہر چہرے پہ چہرہ پے
کِسے خبر اندر کا حال
سیدھا ہے کہ ٹیڑھا ہے
روشن چہروں کے پیچھے
کیسا گھور اندھیرا ہے
خود سے ملنے کیسے آؤں
ہر رستے پہ پہرہ پے
کسی کی کار گزاری کا
کسی کےسر پہ سہرا ہے
بھولی بسری یادوں نے
چاروں اور سے گھیرا ہے
عظمٰی دل کے تاروں کو
پھر آج کسی نے چھیڑا ہے