رات کچھ یارِ طرحدار بہت یاد آئے
وہ گلی کوچے ، وہ بازار بہت یاد آئے
جن کے ہونے کی تسلی سے خوشی ہوتی تھی
درد چمکا تو وہ غمخوار بہت یاد آئے
شامِ فرقت میں چمکتی ہوئی صبحوں کی طرح
اپنے گھر کے درودیوار بہت یاد آئے
سامنے دیکھ کے پرچھائیاں انسانوں کی
کسی افسانے کے کردار بہت یاد آئے
جن کے سایوں میں ہمیں نیند بہت آتی تھی
دھوپ میں ہم کو وہ اشجار بہت یاد آئے
سبھی اچھے تھے ترے شہر کے اربابِ کرم
ہاں ، مگر ان میں سے دو چار بہت یاد آئے
اب جو بھیجا مجھے خط اس نے بڑے پیار کے ساتھ
اس کے کچھ حرفِ دل آزار بہت یاد آئے