رات کیوں اس قدر سہانی ہے
یا مجھی کو یہ خوش گمانی ہے
زندگانی بھی چار روزہ ہے
یہ محبت بھی آنی جانی ہے
جانے کیا ہوگا اب کرم اس کا
جانے کیوں مجھ پہ مہربانی ہے
جانے کیوں وہ خفا سا رہتا ہے
جانے کیا اس کو بد گمانی ہے
آگ سے کھیلتا ہے وہ مورکھ
یہ جوانی بھی کیا جوانی ہے
کچھ بتا تو سہی مرے قاصد
کچھ لکھا بھی ہے یا زبانی ہے
کیا تماشا بنا دیا مجھ کو
آج ہر لب پہ اک کہانی ہے
ہنس کے بولے جو دیکھا اخترؔ کو
یہ بھی مخلوق آسمانی ہے