رات گزری پھر اندھیرا چھا گیا
اپنا سورج دن چڑھے گہنا گیا
ہم نہ جانے کون عالم میں رہے
وقت کاٹا جی نہ بہلایا گیا
بس یہی تھا ان کو پتھر دل پہ ناز
ظلم فرمائیں ترس کیوں آ گیا
معرکہ آرا ہوئے تھے حسن و عشق
بیچ میں دل آ گیا مارا گیا
چودھویں کے چاند والی رات میں
چاند نکلا تھا کہ بادل چھا گیا
کیا سمجھ سکتے محبت کا فریب
یوں تو سمجھے جس قدر سمجھا گیا
ہم سر راہ وفا سنتے رہے
کہہ گیا اپنی سی ہر آیا گیا
آنے والا تھا اندھیرا رات کا
شام ہوتے دور تک سایا گیا
وضع خودداری نباہی تو مگر
اے رضاؔ دانتوں پسینہ آ گیا