فرشتوں نے فضا مے یہ شور مچایا
عرش پر کوئی آدم ہے آیا
بہت پر لطف ہے یہ مٹی بدن کی
سج دھج کے نکلی ہے دیکھو وراست کفن کی
کر دیا پر نور تو نے خاک نا پائیدار کو
پھر اس قدر چھوٹا کیوں رکھا آدمی کے کردار کو
مرے نفس کو مرے عقل کو تابندہ ہوا دے
ہر آن سے لوٹے جو یوں بندے کو خدا دے
مرے شہر کے معازی مے عقائد کی ہے جنگ جو خلاف ریاست ہے
سجدہ تو فقط آدم کے خدا کی وراست ہے