میری شاخ امل کا ہے ثمر کيا
میری شاخ امل کا ہے ثمر کيا
تیری تقدير کی مجھ کو خبر کيا
کلی گل کی ہے محتاج کشود آج
نسيم صبح فردا پر نظر کيا
فراغت دے اسے کار جہاں سے
فراغت دے اسے کار جہاں سے
کہ چھوٹے ہر نفس کے امتحاں سے
ہوا پيری سے شيطاں کہنہ انديش
گناہ تازہ تر لائے کہاں سے
دگرگوں عالم شام و سحر کر
دگرگوں عالم شام و سحر کر
جہان خشک و تر زير و زبر کر
رہے تيری خدائی داغ سے پاک
میرے بے ذوق سجدوں سے حذر کر
غريبی ميں ہوں محسود اميری
غريبی ميں ہوں محسود اميری
کہ غيرت مند ہے ميری فقيری
حذر اس فقر و درويشی سے، جس نے
مسلماں کو سکھا دی سر بزيری
خرد کی تنگ دامانی سے فرياد
خرد کی تنگ دامانی سے فرياد
تجلی کی فراوانی سے فرياد
گوارا ہے اسے نظارہ غير
نگہ کی نا مسلمانی سے فرياد
کہا اقبال نے شيخ حرم سے
کہا اقبال نے شيخ حرم سے
تہ محراب مسجد سو گيا کون
ندا مسجد کی ديواروں سے آئی
فرنگی بت کدے ميں کھو گيا کون
کہن ہنگامہ ہائے آرزو سرد
کہن ہنگامہ ہائے آرزو سرد
کہ ہے مرد مسلماں کا لہو سرد
بتوں کو ميری لادينی مبارک
کہ ہے آج آتش 'اللہ ھو، سرد
حديث بندہ مومن دل آويز
حديث بندہ مومن دل آويز
جگر پر خوں، نفس روشن، نگہ تيز
ميسر ہو کسے ديدار اس کا
کہ ہے وہ رونق محفل کم آميز
تميز خار و گل سے آشکارا
تميز خار و گل سے آشکارا
نسيم صبح کی روشن ضميري
حفاظت پھول کی ممکن نہيں ہے
اگر کانٹے ميں ہو خوئے حريری
نہ کر ذکر فراق و آشنائی
نہ کر ذکر فراق و آشنائی
کہ اصل زندگی ہے خود نمائی
نہ دريا کا زياں ہے، نے گہر کا
دل دريا سے گوہر کی جدائی
تیرے دريا ميں طوفاں کيوں نہيں ہے
تیرے دريا ميں طوفاں کيوں نہيں ہے
خودی تيری مسلماں کيوں نہيں ہے
عبث ہے شکوہ تقدير يزداں
تو خود تقدير يزداں کيوں نہيں ہے
خرد ديکھے اگر دل کی نگہ سے
خرد ديکھے اگر دل کی نگہ سے
جہاں روشن ہے نور 'لا الہ' سے
فقط اک گردش شام و سحر ہے
اگر ديکھيں فروغ مہر و مہ سے
کبھی دريا سے مثل موج ابھر کر
کبھی دريا سے مثل موج ابھر کر
کبھی دريا کے سينے ميں اتر کر
کبھی دريا کے ساحل سے گزر کر
مقام اپنی خودی کا فاش تر کر