رت نہ بدلے تو بھی افسردہ شجر لگتا ہے
Poet: شاہ زین By: شاہ زین, Faisalabadرت نہ بدلے تو بھی افسردہ شجر لگتا ہے
اور موسم کے تغیر سے بھی ڈر لگتا ہے
درد ہجرت کے ستائے ہوئے لوگوں کو کہیں
سایۂ در بھی نظر آئے تو گھر لگتا ہے
ایک ساحل ہی تھا گرداب شناسا پہلے
اب تو ہر دل کے سفینے میں بھنور لگتا ہے
بزم شاہی میں وہی لوگ سرافراز ہوئے
جن کے کاندھوں پہ ہمیں موم کا سر لگتا ہے
کھا لیا ہے تو اسے دوست اگلتے کیوں ہو
ایسے پیڑوں پہ تو ایسا ہی ثمر لگتا ہے
اجنبیت کا وہ عالم ہے کہ ہر آن یہاں
اپنا گھر بھی ہمیں اغیار کا گھر لگتا ہے
شب کی سازش نے اجالوں کا گلا گھونٹ دیا
ظلمت آباد سا اب نور سحر لگتا ہے
منزل سخت سے ہم یوں تو نکل آئے ہیں
اور جو باقی ہے قیامت کا سفر لگتا ہے
گھر بھی ویرانہ لگے تازہ ہواؤں کے بغیر
باد خوش رنگ چلے دشت بھی گھر لگتا ہے
More Sad Poetry






