رختِ سفر سے پیشتر، کسی وفا کے بغیر
کہیں لے نہ ڈوبے تمہیں دیارِ عشق کی سیر
فصیلوں سے لٹکا رکھی ہے تیری تصویر
گویا دل کو بنا رکھا ہے اک دیر
ڈوبنے کی لذت تمہیں کیا معلوم
تو میری آنکھ کے کبھی سمندر میں تیر
سِلاسِل ٹوٹ گئے لیکن مطلق نہ ہوئے
نشاں مٹتے نہیں کٹ چکے ہیں پیر
جو جلتا ہے تیری یاد میں ہر جگہ ہر دیر
وہی دل لئے پھرتا ہے ، سینے میں "عزیر