فطرت کا تقاضا ہے میکے سے ہی جانا ہے
سسرال کو اب اپنا مسکن ہی بنانا ہے
میں نے تو جتن سے اور نازوں سے تجھے پالا
ہر لمحہ تیرے رخ کو نیکی کی طرف ڈالا
اب تجھ کو جدا کرکے بس نیر بہانا ہے
فطرت کا تقاضا ہے میکے سے ہی جانا ہے
دل میں یہ دعائیں ہیں بس چین سے جینا ہو
ڈوبے نہ کبھی تیرا بس ایسا سفینہ ہو
قدموں سے تیرے خوشیاں بس عود کر آنا ہے
فطرت کا تقاضا ہے میکے سے ہی جانا ہے
جیون میں تیرے ہردم بس سکھ کی گھٹا چھائے
خدمت سے تیری سب کو بس پیارہی آجائے
محنت سے کبھی بھی تو نہ جی کو چرانا ہے
فطرت کا تقاضا ہے میکے سے ہی جانا ہے
بس فکر رہے اس کی شکوہ نہ شکایت ہو
ہو تیرا سخن ایسا جس میں ہی حلاوت ہو
جیون میں کسی کا بھی نہ دل ہی دکھانا ہے
فطرت کا تقاضا ہے میکے سے ہی جانا ہے
بس صبر و تحمل سے جیون ہی بِتانا ہے
ہو کوئی پریشانی ساہس نہ گنوانا ہے
میری لاڈلی تجھ کو بھی کانٹوں سے نبھانا ہے
فطرت کا تقاضا ہے میکے سے ہی جانا ہے