رستہ بھی کٹھن اور منزل کی مسافت بھی بہت ھے
Poet: Hassan Kayani By: Hassan Kayani, Leedsرستہ بھی کٹھن اور منزل کی مسافت بھی بہت ھے
پاؤں بھی آبلہ پا اور دھوپ میں شدت بھی بہت ھے
یاد رھے سر راہ کوئی مسافر لوٹنے نہ پائے بیلی
حفاظت توسہی مگر اندھیری رات بھی بہت ھے
دوست تو ھمہ تن گوش سھی مگر یہ احساس
کہ داستان شب غم میں طوالت بھی بہت ھے
ظلمت شب میں بھی روشنی کی امید باقی ھے
لب بھی سوکھ گئے اور بدن میں حرارت بھی بہت ھے
رنگ و نسل کی منافرت کو مٹانے کے لیےصبع و شام
منہ میں زبان تو ھے مگر ھم میں بغاوت بھی بہت ھے
غریبوں کے لہو سے حکمرانوں کے ھاتھ آلودہ ھیں اگر
جان لو ھمیں کلمئہ حق کہنے کی عادت بھی بہت ھے
گلشن میں گلوں کی حفظ آبرو پہ حیران کیوں ھو
آخر خاروں کی گلوں سے رفاقت بھی بہت ھے
بارش کی دعاؤں کے ساتھ ھی جل تھل کیسے
یہ تو سچ ھے مانگنے میں خشیت بھی بہت ھے
حسن یاد کرو باھر گلی میں فقیروں کی صدا پردوڑیں
ویسے بھی ھمیں مسکینوں سےمروت بھی بہت ھے






