زندگی ظلم سہی، جبر سہی ، بار سہی
پھول اوروں کو، مقدر میں مرے خار سہی
وہ کہاں اپنی جفاؤں پہ پشیمان ہوئے
میں نے تو صبر کیا صبر یہ بیکار سہی
مجھ کو آزادی کی نعمت کا تو احساس ہوا
کیا ہوا زیست قفس میں مری دشوار سہی
موت کے خوف سے کب اپنی روش بدلی ہے
ان وفاؤں کا صلہ تخت نہیں دار سہی
رسم دنیا کا تقاضا ہے کہ ملنا ہو گا
گو طبیعت مری اس شخص سے بیزار سہی
ان اداؤں کی بھی قیمت ہے کہاں بس میں مرے
میں ترے حسن کے جلووں کا طلب گار سہی
میں نے سیکھا ہی نہیں حق کے لیے مڑ جانا
سچ کے رستے میں ترے ظلم کی دیوار سہی
موت سے پہلے مجھے ختم نہ کر پائیں گے
ختم کرنے کو وہ دشمن مجھے تیار سہی