رسمِ تجدیدِ محبت کو نبھانا ہی نہیں
راہ جو چھوڑ دی ، اس راہ پہ جانا ہی نہیں
تازہ رکھنے ہیں نگاہوں میں اُمیدوں کے گلاب
ذہن میں تلخیٔ ایام کو لانا ہی نہیں
ہم نے اوروں سے سنا جو بھی ترے بارے میں
کیا وہ سب سچ ہے فقط ایک فسانہ ہی نہیں ؟
تجھ کو پا کر بھی خلش دِل میں کویٔ باقی ہے
دِل کا مذکور ہے کیا دِل کا ٹھکانہ ہی نہیں
اب شکایٔت بھی کریں اِس کی تو کِس سے آخر ؟
بے مہر تم بھی ہو یہ سارا زمانہ ہی نہیں
پاس وہ آۓ تو ہم بھول گیۓ عہد سبھی
ہم نے سوچا تھا کبھی ان کو منانا ہی نہیں
اور کب تک وہ بنایںٔ گے بہانے عذراؔ
پاس اب اُن کے بچا کویٔ بہانہ ہی نہیں