رسمِ وفا خلوص و مہر، سب بھول چکا ہوں
غیروں کی عنایت اپنوں کا قہر، سب بھول چکا ہوں
اِتنا یاد ہے اِس میں شامل تھی اُس کی بھی مرضی
کس نے کیا تھا مجھے در بدر، سب بھول چکا ہوں
کسی کی محبت نے مجھے بھی شاداب کیا تھا کبھی
وہ حسین دن رنگین شام و سحر، سب بھول چکا ہوں
اب تو خود سے بھی بات کرتے ہوئے جی ڈرتا ہے
ہوتی تھی کسی سے گفتگو آٹھوں پہر، سب بھول چکا ہوں