اِس کا نہیں تعلق کوئی بانیوں سے ہے
ملکی تنزلی میری نادانیوں سے ہے
آزادی کی بے حرمتی، لگتا ہے دیکھ کر
اِنہیں نہیں پتا لیا قربانیوں سے ہے
بدیسی شہریت ہے تو خوشیوں کے ساتھ ساتھ
نہیں واسطہ اب ملکی پریشانیوں سے ہے
پینگیں بڑھا رہے ہیں اب مخلوط نوجوان
کیا فائدہ وطن کو ان جوانیوں سے ہے
راجا راجا کہہ کے ماں نے جس کو بگاڑا
رابطہ میں رہتا اب وہ رانیوں سے ہے
مکتبوں میں لڑکوں کو مشکل ہے دیکھنا
گھرا ہوا ہر ایک اپنی جانیوں سے ہے
اس کو کسی نے چھیڑا کو تھانے چلی گئی
سابقہ اُس کا پڑا اب زانیوں سے ہے
حکمراں آزاد ، بے لگام ملازم
برباد ہر ادارہ ہی من مانیوں سے ہے
عیاشیاں حکام کے گھروں کی لونڈیاں
عوام کا رشتہ کوئی، آسانیوں سے ہے
انصاف اور قانون کا اٹوٹ اِک رشتہ
اصلاح سے نہیں ہے بے ایمانیوں سے ہے
وطن کی گاڑی کو تو بس گھسیٹ رہے ہیں
نہیں واسطہ ٹوٹی ہوئی کمانیوں سے ہے
کس طرح ترتیب سے چلیں سواریاں
رستہ بھرا جو خواجہ کی دیوانیوں سے ہے
مشکل میں یاد آجاتی ہے ہر ایک کو نانی
رشتہ مصیبتوں کا کوئی نانیوں سے ہے
دو بم گِرا کہ پھر بھی وہ امن کا ٹھیکیدار
رشتہ تیرا ریاض، کیا ، جاپانیوں سے ہے