انجام بھلا نہ ہو تو آغاز کہاں کا
کچھ قرض نہیں اب روئے فساں کا
بیٹھے ہی بٹھائے دیا فتویٰ,کفر
جو پاک مسلماں تھا پیام قرآں کا
رفائے الفت کو توڑا ہے بےدردی سے انھوں نے
جو رکھتے تھے فقط علم عیاں کا
تشن و تنقید لازم ہے پنپنے کے لیے
جو سمیٹے ہے راز, راز پنہاں کا
غلط فہمی ہی تھی کیا وجہء ہجر
یا فقط خوف تھا نقطہ بندوزماں کا
چھوڑا جنہوں نے ہمیں , سایہ غیر کی خاطر
نچھاور کیے دیتے تھے ان پر , ہر لفظ سماں کا
اک دید میسر تک نہ ہویء کوچہ یار میں
مگر شوق اجاگر ہے تلک طرز, برہاں کا
گلہ کرتے ہیں وہی اس نفس روی کا
جنیہں اعتبار نہ ہو خود اپنی ہی زباں کا
خیر وہ دوستی تو اب نصیب, دشمناں ہوئی
وہ لطف بھی گیا حیات, سواں کا
ہریرہ یہ کاینات مجموعہء دہریا ہے سوچ ذرا
یہاں مول نہیں تیرے خوش بخت گماں کا