مقدر چار دن ہی مہرباں ہم پر اگر ہوتا
دعائیں رنگ لے آتیں و آہوں میں اثر ہوتا
تمھاری ریشمی زلفیں جو شانے پہ بکھر جاتیں
رفاقت کا حسیں موسم ادھورا نہ بسر ہوتا
تمھیں خط بھیجتے ، لکھتے “ تمھارے بن اداسی ہے“
کوئی ان ہجر کے لمحوں میں اپنا نامہ بر ہوتا
محبت کے دیے جلتے ، ہوا نفرت کی نہ چلتی
کہیں جنت سا دنیا میں سکوں والا نگر ہوتا
مقدم نہ رہا انصاف ، منصف دشمن جاں تھا
وگرنہ قتل کا الزام تو اس کے نہ سر ہوتا
انا کو چھوڑ دیتے کاش لمحہء جدائی میں
بچھڑتے ، نہ بچھڑ کے سوز دل ، سوز جگر ہوتا
یہ رستہ ہے بہت دشوار کٹ جاتا رفاقت میں
جسے چاہا تھا زاہد زیست میں گر ہمسفر ہوتا