ہر زخمِ دل بھی ، ہے بھرتا رفتہ رفتہ
پھر بشاش ہوگا دل شِکستہ رفتہ ، رفتہ
جان نہیں جاتی کسی کی کس کہ سوا پر
ہان۔۔ مگر انسان ہے مرتا رفتہ ، رفتہ
جن کے اپنے دشمنو کی صف میں ہوں تو
انکا عزیز ہے کوئی راہ چلتا رفتہ ،رفتہ
جب کبھی مجھ سے بات منوانی ہو اسکو
منہ بناتا وہ ، اور روتا رفتہ ،رفتہ
راتوں سے تعلق مجھ سے پوچھا کسی نے
میں تھا چاند سے تعلق نبھاتا رفتہ ،رفتہ
ہم انسان کو پھر کیوں موسم کہتے ہیں
اب انسان تو ہے بدلتا رفتہ ،رفتہ
لوٹ آتا میں وہ اک ہی بار مجھ کو
فرمان پیچھے سے گر بلاتا رفتہ ، رفتہ