رفتہ رفتہ اب خود کو سنبھال رہے ہیں
اُنھیں بھولنے کی عادت ہم ڈال رہے ہیں
اُنھیں ملنے کی بیقراری، اُنھیں دیکھنے کی حسرت
اُنھیں مل کر تو ہم اور بھی نڈھال رہے ہیں
وہ حسین ہے تو حُسن پہ ذوال لازم ہے مگر
ہم شاعر تو سدا ہی لازوال رہے ہیں
غیروں کی کہاں جرات کہ نظر بھی اُٹھا کے دیکھیں
خود اپنے ہیں جو پگڑیاں اُچھال رہے ہیں
رسوائی ہے حال و ماضی اور مستقبل میخانہ
تینوں حالتوں میں "حاوی" ہم بے حال رہے ہیں