رفتہ رفتہ سب شکستہ جزو پریشاں ہو گئے
سوتے سوتے میرے اعضاء آج بالکل سو گئے
میں کہاں اور میری منزل کا نشاں جانے کہاں
اپنی منزل کا نشاں پانے سے پہلے کھو گئے
ہم کہ اپنے آپ مین مشکور بھی معذور بھی
وصل کی نعمت سے پہلے ہجر میں گم ہو گئے
تا ابد جن کا مقدر ٹوٹتے رہنا رہا
کرچیاں چنتے ہوئے خود بھی کرچی ہو گئے
جو قضا کے خوف سے تا زندگی ڈرتے رہے
وہ قضا کے روبرو ہو کر بہادر ہوگئے