رفیق صبح اجالا شناس ہیں ہم لوگ
حیات نو کے نئے آفتاب ہیں ہم لوگ
سفیر وہ شب ظلمت کے ،روشنی کے عدو
چراغ صبح کی روشن مثال ہیں ہم لوگ
وہ کارواں ہے جو منزل پہ جاکے دم لے گا
کہ حوصلوں کی عزم کی چٹان ہیں ہم لوگ
ہمارا عزم ہے کامل یہی رہبر یہی منزل
یہ ہمتوں کے امیں اس کے پیرو کار ہیں ہم لوگ
زباں ہماری ہے پھولوں کی لہجہ خوشبو کا
کہ میر و غالب و سچل لطیف ہیں ہم لوگ
میں کس طرح سے رہوں دھرتی سے لاتعلق سا
یہ ماں کا روپ ہے دھرتی کے لال ہیں ہم لوگ
زمیں سے کٹ کے کوئی گھونسلہ نہیں بنتا
بلندیوں کے اگرچہ ہیں نگہباں ہم لوگ
صدائیں دوگے ہمیں مڑ کے پھر نہی دیکھیں گے
نکل گیا تیرے ہاتھوں وہ وقت ہیں ہم لوگ