رنگ بدلا ہوا ہے چھاؤں کا
شہرِ دل سوز کی فضاؤں کا
جسم تیروں سے ہو گیا چھلنی
اور کیا ہو صلہ وفاؤں کا
صبر کرنا سکھا دیا مجھ کو
ہو بھلا جبر کے خداؤں کا
کسظرح کھیلتے ہیں موجوں سے
حوصلہ دیکھ ناخداؤں کا
دیکھ وہ آج رُو بہ پستی ہے
جو مسافر تھا ارتقاؤں کا
قرض اتاروں گی کسطرح عاشی
ستم اندیش دیوتاؤں کا