روز ہی تنہائی میں کچھ سوچنے لگتا ہوں میں
پھر انہی سوچوں کو لیکر بھاگتا پھرتا ہوں میں
میری نگاہوں سے اوجھل ہونے لگتا ہے دوبدو
جب کسی سائے کو پیکر جاننے لگتا ہوں میں
جب گلوں پر ڈولتی ہیں رنگ برنگی تتلیاں
ایسے منظر کو نگاہوں میں سجا لیتا ہوں میں
رات کی تنہائی میں جب سارے دن کی شورشیں
مجھ کو پریشاں کرتی ہیں خوب رو لیتا ہوں میں
جب مجھے ناگن شب خواب میں ڈسنے لگے
آنکھیں کھولتا ہوں اور نیند کھو دیتا ہوں میں