روشنی مجھ سے گریزاں ہے تو شکوہ بھی نہیں
میرے غم خانے میں کچھ ایسا اندھیرا بھی نہیں
بے نیازانہ گزر جائے گزرنے والا
اب نظر پہلی سی بےتابِ تمنا بھی نہیں
پرسشِ حال کی فرصت تمہیں ممکن ہے نہ ہو
پرسشِ حال طبیعت کو گوارا بھی نہیں
یوں سرِ راہ ملاقات ہوئی ہے اکثر
تم نے دیکھا بھی نہیں، ہم نے پَکارا بھی نہیں