جی بھر کر رونے کو کرتا ہے دل
آج پلکیں بھگونے کو کرتا ہے دل
نہیں معلوم کچھ وجہہ کارن
بس دکھی ہونے کو کرتا ہے دل
کسی کی یاد ستا رہی ہے بہت
شب گئے نہ سونے کو کرتا ہے دل
کیا ہی خون رلاتا ہے غم ہجراں میں
تنہائی میں پھوٹ رونے کو کرتا ہے دل
کوئی حد بھی ہے ستم ظریفی کی؟
ہنوز چاک گریبانی کرنے کو کرتا ہے دل
جس کے نام پر چڑ کھاتا ہے اسد
اسی پر جان چھڑکنے کو کرتا ہے دل