رُتیں فراقِ پیہم کی، جو چُنے ہوتے ہیں
کفن کے تاروں کو خود ہی، وہ بُنے ہوتے ہیں
سمجھ نہ پائیں گے میری تلخ کامی کے وجہ
بے ربط عنواں سے قصہ جو سُنے ہوتے ہیں
متاعِ ضبطِ حاصل بھی، گنوا دیتے ہیں وہ تو
عتابِ رفتہ کے سایے، یُوں گھَنے ہوتے ہیں
کھلاتے گل ہیں خونِ رگِ جگر دے کر جو
محب چمن نے ایسے بھی، کچھ چُنے ہوتے ہیں
جَلا کے ناؤ خود اپنی، نکلے ہیں میداں کو
سپوت ایسے بھی ماؤں نے جنَے ہوتے ہیں
ملی ہی ہوتی ہیں خون میں وفائیں ڈاؔہر
بدن بظاہر تو مٹی سے بَنے ہوتے ہیں