رُخصتِ نظر سے ہجر کا ، عزاب لکھ کر چلا گیا
کہا کچھ نہیں اس نے ، جواب لکھ کر چلا گیا
وہ جو کہتا تھا میری ہر اک سانس تمہاری ہے
جاتے جاتے ہر لفظ کا ، حساب لکھ کر چلا گیا
جسے ہر بھنور میں تھامے رکھا میں نے
وہی تقدیر میں ، گرداب لکھ کر چلا گیا
تصویرِ جزبات کے رنگ سمجھ نہ سکا تو
دل ہے تیرا ، خراب لکھ کر چلا گیا
رہنماء وطن کے سب ہی اردو سے عاری تھے
سُو انگریزی دان انکا ، خطاب لکھ کر چلا گیا
سببِ رخصتِ حیاء جو مُلّا سے پوچھا تو
دبے لفظوں میں ترکِ ، حجاب لکھ کر چلا گیا
پڑھ پڑھ کتابیں ذوقِ تحقیق اجاگر نہیں ہوتا
یہ کون قوم کا ، نصاب لکھ کر چلا گیا
جواں کو کیا نسبت تیرے ذوقِ تخیل سے
جانے کیوں اقبال ، کتاب لکھ کر چلا گیا
تدبّر و تفکّر بھی امام کا ہی شیوہ تھا
کون محض ممبر و ، محراب لکھ کر چلا گیا
اخلاق یوں تو ظلم میں حجاج کی نزیر نہیں ہے
مگر وہی قرآن میں ، اعراب لکھ کر چلا گیا