رکھ کر تُو درمیان سے کافر کو چیر دے
جو سانس باقی اب بھی ہو تو دل پہ تیر دے
اے دوست میرے فکر نہ تو کر رقیب کی
مجنوں کو لیلیٰ اس کی دے رانجھے کو ہیردے
ہم سے جو چھین لے جو ملا دین ہے ہمیں
رہبر نہ ہم کو ایسا دے ایسا نہ پیر دے
ڈوبا رہے جو دنیا کی موجِ گناہ میں
بد جسم مجھ سا نہ دے نہ مجھ سا ضمیر دے
الجھا میرا یہ دل بھی ہے الجھی ہے سوچ بھی
رہبر مجھے تو اچھّا دے اچھّا فقیر دے
عامر خدا کی مرضی جو چاہے سو وہ کرے
اقبال دے کسی کو وہ غالب یا میر دے