رہا شہر عدل میں ہوئے خطا کار اب کے
کھل گئے قول و عمل کے اسرار اب کے
بے صرفہ ہی گیا موسم بہار اب کے
چاک ہوئے گریباں نہ داماں تار اب کے
آنکھوں میں شمعیں جلیں، نہ دل میں چراغ
جذبوں میں آنچ کوئی نہ دھڑکن بیقرار اب کے
ہوا کی چادر اوڑھ کے سوتے ہیں
گھر بھی اک بنایا ہے بے در و دیوار اب کے
جتنی دلیلیں تھیں جنبش لب یارکے آگے رد تھیں
مات کھا گئے شارق سے شہسوار اب کے