ستم کرتے ہو میرے دوست بن کے مہرباں مجھ پر
میں چپ ہوں گرچہ نیت سب تمھاری ہے عیاں مجھ پر
خموشی اور تنہائی کا خوگر ہوں میں اک شاعر
نہ اونچا بولیے کہ یہ گزرتا ہے گراں مجھ پر
لبوں پہ رک گئی ہیں آکے باتیں ساری دل والی
انھیں تم سے بیاں کرنا ہوا نہ کچھ آساں مجھ پر
مرے دکھتے ہوئے دل کی یہ چیخیں تم جنوں سمجھے
اگر جانو گے میرا حال ہو گے نہ حیراں مجھ پر
سخن میرے نہیں دل کا بیاں ہے چند لفظوں میں
نجانے تبصرے اب کیا کریں اہل زباں مجھ پر
تقاضا ہے تمھارا گنگناؤں ، مسکراؤں میں
کھلیں کیسے لبوں پہ پھول چھائی ہے خزاں مجھ پر
ادب کرتا ہوں پھر بھی کم ہوئی نہ اس کی گستاخی
لگاتا ہے بڑی اب تہمتیں وہ بدزباں مجھ پر
شریک زندگی نہ ہو سکا میرا شریک غم
تو کیسے ساتھ رہتے بوجھ نہ ہو یہ مکاں مجھ پر
خلوص دل رہا بے داد یہ پایا صلہ میں نے
زبانیں کھل رہی ہیں ، اٹھ رہی ہیں انگلیاں مجھ پر
ستم اپنوں نے ہی ڈھائے ہمیشہ کیا کہوں آخر
ستم اب یہ نیا ٹوٹا نہیں ہے ناگہاں مجھ پر
لہو آنکھوں سے ٹپکایا ہے میں نے عمر بھر زاہد
رہی ہے زندگی میری بڑی نامہرباں مجھ پر