رہینِ ضبط ہُوں ، یُوں امتحان دینا ہے
زمیں کے ساتھ مجھے آسمان دینا ہے
جھلس رہا ہے جو احساس دشتِ وحشت میں
بہ شکلِ ابر اُسے سائبان دینا ہے
کوئی بھی لمحہ جہاں بد گمانیوں کا نہ ہو
مجھے یقیں کا مکمل جہان دینا ہے
یہ یاد رکھنا یہاں حرف حرف ہے پہرہ
حروف اور معانی پہ دھیان دینا ہے
رہِ یقیں کا یہی سنگِ میل ہے پہلا
نفی نشان کو ، مثبت نشان دینا ہے
دوامِ عہدِ تمنا بہت ضروری ہے
غمِ جنوں کو ذرا اطمینان دینا ہے
اٹھا کے پھینک دو لنگر ابھی سمندر میں
ہوا کے ہاتھ اگر بادبان دینا ہے
مرا اثاثہ ہے عاشی یقینِ صبحِ حسیں
کرن کرن کے اجالے کو مان دینا ہے