ریت کا ایک گھر بنایا تھا
آندھیوں میں دیا جلایا تھا
میں اسے ہمسفر سمجھتا رہا
مڑ کے دیکھا تو اپنا سایہ تھا
ہو گیا حال دل عیاں آخر
غم جہاں سے بہت چھپایا تھا
پھر نوید بہار دو نہ مجھے
میں نے پھولوں سے زخم کھایا تھا
رہ گیا اب سدا کا پچھتاوا
ایک پھتر سے دل لگایا تھا