رینگتے دوڑتے ہوئے ڈبے
سائے کی طرح جھانکتے چہرے
گردنوں میں لٹک رہی ہے زباں
اور آنکھوں پہ رکھے ہیں شیشے
مچھلیاں چل رہی ہیں پنجوں پر
جن کے چہرے ہیں لڑکیوں جیسے
ساز پر شور کرب ہنستا ہے
بولیاں بولتے ہوئے ڈبے
اک بڑا کالا جادُو کا کمرا
اور پردے پہ لڑکیاں لڑکے
ننگی دیوار کا لباس بنے
کاغذی جسم و رنگ کے چہرے
اب سفر کا نیا طر یقہ ہے
لوگ لیٹے ہیں چلتے ہیں کمرے
کوئی آئینہ ہم کو دے دیتا
دیکھنایہ ہے ہم بھی کچھ بدلے