صحرا کی دھول آسماں پہ نظر رکھتی ہے
نہیں موت کی جرات یہ مگر رکھتی ہے
چھوتی ہے ہر شب آسماں کی قندیلوں کو
کیا خوب نگاہ ہے انداز سفر رکھتی ہے
جھک جائے تو شہر خموشاں ہے رضا
اٹھے تو تقاضہ حشر رکھتی ہے
زاہد کی تجلی مے مناجات ہے کرتی
شرابی کے بدن مے قبر رکھتی ہے
تقدیر کے نشتر نے ہے گھیرا اسے
یہ خاک ہے مغرور اپنا اثر رکھتی ہے