زبان مت کھول ، پھلے قوتِ گفتار پیدا کر
سخن دانی میں تاثیرِ گل و گلزار پیدا کر
اضافہ دشمنوں میں کم نظر ہی اپنے کرتے ہیں
کمالِ ہوشمندی ہے کوئ غم خوار پیدا کر
تجھے حاصل نہ ہو کیوں سرفرازی دارِ فانی میں
دلوں کو جیت لے سب کے وہی کردار پیدا کر
یہی ہر آدمی سے آدمیت کا تقاضہ ہے
محبت عام کے لے ، جزبہ ایثار پیدا کر
ارے ناداں ، سفر میں حوصلے کیوں پست کرتا ہے
قدم آگے بڑھا اور گر مئ رفتار پیدا کر
تجھے اہلِ نظر اپنی نگاہوں میں جگہ دیں گے
شعور و فکر میں اے کاشفی معیار پیدا کر