زبان پر دباٶ کی ، لگام کے خلاف ہوں
غلام کے نہیں خلاف ، نظام کے خلاف ہوں
جڑی ہے جن کی چھاپ سے وحشتِ اسیریِ قوم
ایسی ہر اک نسبت و ، نام کے خلاف ہوں
شر سے بچاٶ جب موجبِ ادب رہے
میں ایسے کھوکھلے ، احترام کے خلاف ہوں
قبیلہ حسب و نسب پہچان کی حد تک ہیں ٹھیک
بنٹے جو امت تو نعرہِ ، اقوام کے خلاف ہوں
برپا کر کے شورِش خود رہے دم بخود
میں ایسے شخص کے ، کہرام کے خلاف ہوں
امیر اور غریب کے لۓ انصاف کے دوہرے معیار
اخلاق میں ایسے سبھی ، اقدام کے خلاف ہوں