زرد جذبے ہوں تو کب نشو و نما ملتی ہے
فن کو تہذیب کی بارش سے جلا ملتی ہے
سر میں سودا ہے تو چاہت کے سفر پر نکلیں
کرب کی دھُوپ، طلب سے بھی سوا ملتی ہے
کون سی سمت میں ہجرت کا ارادہ باندھیں
کوئی بتلائے، کہاں تازہ ہوا ملتی ہے
چاند چہرے پہ جواں قوسِ قزح کی صُورت
تیری زُلفوں سے گھٹاؤں کی ادا ملتی ہے
ہم تو پیدا ہی اذیّت کے لئے ہوتے ہیں
ہم فقیروں سے تو دُکھ میں بھی دُعا ملتی ہے
کتنا دُشوار ہے اب منزلِ جاناں کا سفر
خواہشِ قربِ بدن، آبلہ پا ملتی ہے
بے نمو شاخوں سے پتّوں کو شکایت کیا ہو
اب تو پیڑوں کو بھی مشکل سے غذا ملتی ہے
اور بڑھنے دو گھٹن خوف نہ کھاؤ اِس سے
شدّتِ حبس سے تحریکِ بقا ملتی ہے
کبھی فرصت کی کوئی شام، سحر تک دے دے
یوں جو ملتی ہے سرِ راہے تو کیا ملتی ہے
سر سے چادر نہ اُتارو مِرے اچھے فنکار
برہنہ حرف کو معنی کی رِدا ملتی ہے
تیرا انصاف عجب ہے مِرے جبار و غنی
جرم ہم کرتے ہیں بچوں کو سزا ملتی ہے
جب سے تنہائی کو اوڑھا ہے بدن پر
تمکنت لہجے میں پہلے سے سوا ملتی ہے