زمانے کو رنگ نیا دیتا ہے
ہر فکر کو انداز سیکھا دیتا ہے
فرق تو کشمکش میں ہے ورنہ
بے بحر کو بھی با بحر بنا دیتا ہے
اک تسلسل تو بپا ہے ہر کام میں
سمندر ہو تو ساحل کو بھلا دیتا ہے
اک کرشمہ ہے شاید تخلیق کا
پتھر ہو چٹاں کو ہلا دیتا ہے
انساں کی فطرت تو رہی ہے ازل سے
جھکتا نہیں پر خود کو مٹا دیتا ہے