بہت سادہ طبعیت بھولی بھالی
کہ جیسے بن کھلی کھلیوں کی ڈالی
جبیں سچی خوشی کا آشیانہ
تبسم میں مسرت کا ترانہ
زمانے کی ہوا سے بے خبر ہے
نظر معصوم٬ دل معصوم تر ہے
کنول کے پھول کی مانند سادہ
حیا فطرت زیادہ سے زیادہ
حنا سے پاک ہیں شفاف پورے
یونہی کچھ سرخ ہیں آنکھوں کے ڈورے
نگاہیں مطمئین٬ چہرہ ہے مسرور
یہ عالم ہے٬ پریشان ہے نہ مغرور
ابھی تک مسکراہٹ بے سبب ہے
ابھی دل کی انگیٹھی گرم کب ہے
ابھی انگڑائی ہے جذبے سے خالی
ابھی آزاد ہے ہونٹوں کی لالی
ابھی کوئی پریشانی نہیں ہے
نظر مانوس حیرانی نہیں ہے
بناوٹ سے نہیں اس کو سروکار
کہ وہ فطرت کے گلشن کی ہے پھوار
پریشاں زلف صدری ملگجی ہے
دوپٹہ کی کناری مڑگئی ہے
گریباں کے بٹن ٹوٹے ہوئے ہیں
جبیں پر بال کچھ چھوٹے ہوئے ہیں
گرہ دیتی ہے الجھے گیسوؤں میں
کھٹکتی ہے کبھی ناخن کی کوریں
کلی اب پھول بنتی جا رہی ہے
دبے پاؤں جوانی آ رہی ہے
ابھی نغمہ ضمیر ساز میں ہے
جوانی منزل آغاز میں ہے