اِس کہانی کی حقیقت اور کچھ بھی ہے
زندگانی کی حقیقت اور کچھ بھی ہے
جو نظر آتا ہے سب ویسا نہیں ہوتا
جو کہا جاتا ہے سب ویسا نہیں ہوتا
جو سنا جاتا ہے سب ویسا نہیں ہوتا
جو سمجھ آتا ہے سب ویسا نہٰیں ہوتا
خاک کے ذرے کو محض خاک نہ سمجھو
آگ کی حدت کو محض آگ نہ سمجھو
پانی کے قطرے محض حباب ہی نہیں
صرصر ہوا کے جھونکے محض راگ ہی نہیں
آدمی کے بھیس میں کتنے چراغ ہیں
کتنے ہیں شاہین اور کتنے زاغ ہیں
آدمی انسان ہے آدمی حیوان ہے
آدمی فرشتہ ہے آدمی شیطان ہے
آدمی کے روپ میں کتنے سروپ ہیں
آدمی چھاؤں ہیں آدمی دھوپ ہیں
ایک جان سے جڑے کئی سائے سنگ ہیں
ایک انگ میں ڈھلے کئی طرح کے رنگ ہیں
زندگی سے موت، مرگ سے حیات تک
تخلیق کے خیال سے تکمیلِ ذات تک
زندگانی کی حقیقت اور کچھ بھی ہے
اِس کہانی کی حقیقت اور کچھ بھی ہے
(دوبارہ اغلاط کی اصلاح کے بعد)