زندگی سے سوال کیا کیجے
حُسن کو پُر ملال کیا کیجے
عشق میں جان تک تو دے دی ہے
اِس سے بڑھ کر کمال کیا کیجے
اُس کی آواز سن لی نغمہ گر
اب یہ سازِ غزال کیا کیجے؟
دل مسلتا ہے پھول کہہ کر جو
اُس کی جانب خیال کیا کیجے
آنسوؤں کو سجا کے پلکوں پر
جب وہ چلتا ہے چال کیا کیجے
حسن ہے سر تا پا مگر اے دوست
حسن کو ہے زوال کیا کیجے
ایسے جلتا ہے تو جلے ارسہ
دل کی اتنی سنبھال کیا کیجے؟