زندگی میں اور کیا تھا
کچھ نہیں بس حوصلہ تھا
اس سے ملنے کا سبب ہی
زندگی کا حادثہ تھا
کچھ نہیں اس کو ہوا تھا
دل تو میرا ہی جلا تھا
دشمنوں پہ دوش کیا تھا
وار اپنوں نے کیا تھا
ایک ہی دکھ رہے گیا تھا
یار میرا بے وفا تھا
اس نے مجھ کو مار ڈالا
جس کا مجھ کو آسرا تھا
میرے جیون کے سفر میں
بس غموں کا سلسلہ تھا
دوش دیتا کیا کسی کو
اپنے ہاتھوں گھر جلا تھا
اس نے آخر توڑ ڈالا
دل جو میرا من چلا تھا
قافلہ جس نے تھا لوٹا
قافلے کا رہنما تھا
ناؤ خود ہی لے کے ڈوبا
خود ہی اپنا ناخدا تھا