بنگال کے ووٹ پہ ڈا کے میں
تقسیمِ وطن کے خاکے میں
تصویرِ سقوطِ ڈھا کے میں
اک ایسا چہرہ دیکھو گے
لوگوں جو آج بھی زندہ ہے
زندہ ہے بھٹو زندہ ہے
قومیت کے اِن نعروں میں
عصبیت کی تکراروں میں
نفرت کے سجے بازاروں میں
اس شخص کے نعرے لگتے ہیں
ملت جس پر شر مندہ ہے
زندہ ہے بھٹو زندہ ہے
محنت سے اس بیزاری کا
مزدور کی اس لاچاری کا
افلاس کا اور ناداری کا
سہرا اس شخص کے سر پہ ہے
جو تیرے حال پہ خندہ ہے
زندہ ہے بھٹو زندہ ہے
یہ ملک تمہارا ہے لوٹو
ہرگھر لوٹو دفتر لوٹو
ہر کھیت اور مِل ملکر لوٹو
یہ نعرہ ہے منشور بھی ہے
جو زندہ اور پائندہ ہے
زندہ ہے بھٹو زندہ ہے
تعلیم کی اس پامالی پر
استاد کی اس بدحالی پر
اور ملک کی خستہ حالی پر
اس جہل کی مہر نمایاں ہے
جو ایوانوں میں زندہ ہے
زندہ ہے بھٹو زندہ ہے