زہے نصیب اے شباب کرم ہے انکا یہ بھی
جو اپنے چاہنے والوں میں مجھ کو بھی شمار کرتے ہیں
جسے کہتے تھے کبھی اپنا وہ اب اپنا نہیں رہا
وہ جو رشک صبح بہار تھا وہ چمن اب اپنا نہیں رہا
میرے کوچے کی طرف تیرا گزر ہو کہ نہ ہو
کس کو معلوم اس شب کی سحر ہو کہ نہ ہو
جن رنگوں کا اجالا تیری تصویر میں ہے
وہی جھنکار میری تحریر کی زنجیر میں ہے
شباب کے خیال کے پہلو میں زرا بیٹھ کر تو دیکھو
تمہارے خواب نہ مسکائیں تو مجھ سے کہنا