زیست اپنی جہاں میں فسانہ ہوئی
دوستوں کے ستم کا نشانہ ہوئی
جو تھی حاصل کبھی، وہ مسرت، مجھے
کر کے غم کے حوالے روانہ ہوئی
قیس کا ہم نفس وہ نہیں ہے جسے
دشت میں۔ خواہش آشیانہ ہوئی
کون آداب الفت سے ہے با خبر
عاشقی اب تو رسم زمانہ ہوئی
بربط دل مرا کیجئے گا قبول
آپکو جب غزل گنگنانا ہوئی
نطق میرا بنا درد کا ترجماں
شاعری میری رومی ! یگانہ ہوئی
کیسا میخانہ اور کیا مری میکشی
غم مٹانے کا رومی ! بہانہ ہوئی