شہرِ فنا ہوں تیرے کس کام کا ہوں
اک بجھتا سا دِیا ہوں تیرے کس کام کا ہوں
تو رفاقت کےلیے اور کسی کو چُھن لے
میں تو خود اب لاپتا ہوں تیرے کس کام کا ہوں
تجھ کو درکار ہے پھولوں کے مہکتے سائے
میں تو صحرا میں کھڑا ہوں تیرے کس کام کا ہوں
اے پرستارِ گلِ تار تیرا رستہ تکتے
شاخ پہ سُوکھ گیا ہوں تیرے کس کام کا ہوں
تو بھی اوروں کی طرح مجھ سے کنارہ کر لے
ساری دنیا سے بُرا ہوں تیرے کس کام کا ہوں