سارے عالم سے نرالا نکلا
جو ترا چاہنے والا نکلا
دل مرا رنج کا پالا نکلا
شکر ہے، ظرف میں اعلٰی نکلا
کب نکلتا ہے خوشی سے کوئی؟
آپ نے گھر سے نکالا، نکلا !
میرا ہر شعر اثاثہ تھا مرا
اس میں بھی تیرا حوالا نکلا
کوئی بھی وعدہ وفا ہو نہ سکا
جس کو دیکھا ترا ٹالا ، نکلا
آپ کی دید کی خاطر، عالم
گھر سے باہر شہ والا ! نکلا
میرے زخموں کا چراغاں دیکھو
دشت میں ان سے اجالا نکلا
اشک آنکھوں سے چھلکتے دیکھے
دل لا لبریز پیالا نکلا
ہر کہانی کا جدائی انجام
کیا ہی ظالم یہ رسالا نکلا
دیکھا رومی ! ترا دیوان بغور
جا بجا غم کا حوالا نکلا