دِل مستیِ کہنہ کا طلبگار ہے ساقی
سجا ہوا رِندوں کا دربار ہے ساقی
سر جوڑ کے بیٹھے ہیں اہلِ جنوں یہاں
مینا و جام کا انتظار ہے ساقی
لبریز ہے پیمانہ تاخیر کس لئے
میخوار مے کشی کو تیّار ہے ساقی
اپنی خرد پہ خاک یقیں ہو کہ نہیں ہو
رند کا تاثیر مے پہ اعتبار ہے ساقی
عشق و جمال کی تکرارِ جانفزا سے
یہ گلشنِ حیات گلزار ہے ساقی
ذرے کو ماہتاب پتھر کو لعل کر دے
ساز جنون کوئی چمتکار ہے ساقی