شام بے طنز بے رنگ ہوئی جائے
نہ چراغ کوی نہ اميد نظر آئے
ميں بخرچوکا ہوں کہ وہ نہيں راست
پر يہ دل ہے کہ اسپر يقيں کيے جائے
رہتی ہے ديد اس پيرہن تلے گم اور لب
اور وہ ہنسی مجهے بے دم ستائے
تدبير غم و الم ہے کہی ميرا مگر
وہ رو يار نہ کہی جلوہ گر ہے ہائے
مڻتی ہے تو مٹ جائے يہ ہستی سادق
چاہے تو نيرنگی سے پر ميرا ہو جائے