سانحہ ھم سے بھلایا نہ گیا
اک داغ دل سے مٹایا نہ گیا
تسکین دل کا سامان نہ ھوا
راز الفت ھم سے چھپایا نہ گیا
دوست نما دشمن وار کرتے رھے
کوئی دشمن دوست بنایا نہ گیا
ضد اور انا کی لڑائی میں اکثر
ھم سے ان کو ھرایا نہ گیا
کبھی کوئی غمگسار ڈھونڈتے رھے
پر غموں کا حساب چکایا نہ گیا
اھل دین بھی فرقوں میں بٹ گئے
ھم سے ان کو یکجا بنایا نہ گیا
خواہش تھی کہ درد کی دوا بنتے
مگر یہ بار گراں اٹھایا نہ گیا
تکیہ جو کر چکے تھے بےوفاپہ ایسا
پھر اس کی جفاؤں کو سنبھالانہ گیا
ترک الفت کے جتن ھزار کئے حسن
مگر خیال یار سے دامن چھڑایا نہ گیا